پشاور(سید طاہر شاہ سے)معروف معالج ڈاکٹر نقیب اللہ جو طب کے شعبے میں کسی تعارف کے محتاج نہیں گزشتہ روز میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میرا تعلق شمالی وزیرستان کے ایک پسماندہ گاؤں سے ہے،میں نے گریجویشن خیبر میڈیکل کالج سے کی ہے،پوسٹ گریجویشن انسٹی ٹیوٹ آف کڈنی ڈیزیزسے کی ہے،سیکنڈ فیلو شپ لاہور سے کی،اس وقت میں ہیلتھ نیٹ ہسپتال میں بطور کنسلٹنٹ یورالوجسٹ کے کام کر رہا ہوں،ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ فاٹا ایک پسماندہ علاقہ ہے وہاں طب کے شعبے بارے اتنی آگاہی نہیں ہے،اس لئے میں طب شعبے کی طرف آیا،اور اپنی محنت اور والدین کی دعاؤں سے یورالوجسٹ بن گیا،انہوں نے کہا کہ یورالوجی کے شعبے میں 2017 سے خدمات انجام دے رہا ہوں لیکن سیکس (SEXUAL DISESES)بیماریوں کا علاج گزشتہ تین سال سے کر رہا ہوں،ان بیماریوں کے علاج کے لئے صوبے کے مختلف اضلاع سے مریض میرے پاس آتے ہیں،ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ طب کا شعبہ ایک باوقار اور باعزت شعبہ ہے،ہم بھی اس کے ساتھ مخلص ہیں،مریضوں کا علاج عبادت سمجھ کر کرتے ہیں،کوئی فالتو دوائی یا ٹیسٹ وغیرہ نہیں لکھتے،نا ہی کمیشن پر یقین رکھتے ہیں،ہر شعبے میں ایسے لوگ ہوتے ہیں جوپیسوں کیلئے آتے ہیں لیکن ہر شعبے میں خدمت کی نیت سے بھی لوگ آتے ہیں،ڈاکٹروں سے متعلق یہ بات کہ یہ مریضوں کو لوٹتے ہیں مکمل درست نہیں کیونکہ کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ جس کیلئے مریض کو پیسے خرچ کرنا پڑتے ہیں،ڈاکٹر اپنی فیس معاف کر سکتا ہے،لیکن ادویات اور ٹیسٹ میں رعایت کروا سکتا ہے معاف تو نہیں کرواسکتا،البتہ ہم لوگ جب دیکھتے ہیں کہ کوئی مستحق مریض آگیا ہے تو کوشش کرتے ہیں کہ اسے فیس،ٹیسٹ یا ادویات میں کسی نہ کسی طرح ریلیف دیں،کیونکہ ہم تو خدمت کے جذبے کے تحت اس فیلڈ میں آئے ہیں،ایک سوال کے جواب میںڈاکٹر صاحب نے کہا کہ پرانے وقتوں میں کسی بھی علاقے میں ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہوتا تھا جو تمام بیماریوں کا علاج کرتا تھا،لیکن آج کل سائنس نے ترقی کر لی ہے،ہر بیماری کو مختلف حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے،اور بیماری کے تمام حصوں میں سپیشلائزیشن کی جا رہی ہے،اس لئے عوام کو ان سہولیات سے فائدہ اٹھانا چاہیے،
اب جس طرح یورالوجسٹ میں 6 شعبے ہیں جس کے ہر شعبے میں سپیشلائزیشن کی جا رہی ہے،ان شعبوں میں ایک SEXUAL DISESES یورالوجسٹ ہے،جس کے زریعے مریضوں کا کامیاب علاج کیا جا رہا ہے،اب عوام میں بھی اس بارے آگاہی آ رہی ہے،ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ SEXUAL DISESESکا علاج ہومیو پیتھک اور حکیموں کے پاس بھی ہے لیکن آج کل تو آپ جانتے ہیں ہر گلی ،محلے میں ایک ڈاکٹر اور حکیم بیٹھا ہوا ہے،ہمارے پاس جب مریض آتا ہے تو ان میں زیادہ تر مریض بیماری کی آخری سٹیج پر ہوتے ہیں پھر بھی ہماری کوشش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح مریض شفا یاب ہو جائے،میں یہ نہیں کہتا کہ ہومیو پیتھک ڈاکٹرز یا حکیم قابل نہیں ہوتے ،بس اتنا ضرور کہوں گا نیم حکیم زیادہ ہیں اور ماہر ڈاکٹرز یا حکیم بہت کم ہیں،ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آج کل نوجوان شادی کے بعد ٹائمنگ کیپسول وغیرہ استعمال کرتے ہیں انہیں میں اتنا کہوں گا کہ بغیر کسی مستند ڈاکٹر کے کسی قسم کی کوئی دوائی استعمال نہ کریں کیونکہ ہر دوائی کی اپنی مقدار اور طریقہ کار ہوتا ہے اگر اس پر عمل نہ کیا جائے تو نقصان کا سبب بن سکتا ہے،اگر کسی نوجوان کو کوئی SEXUALمسئلہ ہو تو وہ کسی مستند ڈاکٹر کے پاس جائے،انہوں نے کہا کہ مریض کا طبی معائنہ مکمل اطمینان کے ساتھ کرتے ہیں جب تک مریض مطمئن نہ ہو تو اس کا معائنہ جاری رکھتے ہیں اسے یہ نہیں کہتے کہ باہر اور بھی مریض انتظار کررہے ہیں،ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ SEXUAL DISESES یعنی جنسی امراض کے بڑھنے کی زیادہ تر وجہ نوجوان نسل کا دین سے دوری اور بے راہ روی کا شکار ہونا ہے،جس کی وجہ سے وہ رنگ برنگی ڈاکٹروں کے پاس جانا شروع کر دیتے ہیں،الٹی سیدھی ادویات کھانا شروع کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اور بھی کمزور اور بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں،اسی لئے کہتا ہوں کہ اس قسم کے مریضوں کو ماہر داکٹر کے پاس جانا چاہیئے،آخر میں ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ کسی بھی شعبے میں اگر انسان مخلص ہو تو کامیابی اس کے قدم چومتی ہے،اسی لئے ڈاکٹر حضرات کو بھی خدمت کے جذبے کے تحت مریضوں کا علاج کرنا چاہیئے،انہوں نے عوام سے بھی کہا کہ اولاد اللہ پاک کی نعمت ہے اگر ایک سال تک بھی اولاد نہ ہو تو پریشان نہیں ہونا چاہئے،زیادہ عرصہ گزر جائے تو ماہر ڈاکٹر سے رابطہ اور طبی مشورہ کرنا چاہیئے،اس کے علاوہ سادہ خوراک اور ورزش کو معمول بنانا چاہیئے،
ایک تبصرہ شائع کریں
پلیز کمنٹ باکس میں کسی قسم کا سپیم لنک شیئر نہ کریں